Aflak Se Uncha Hai

اَفلاک سے اُونچا ہے ایوان محمد کا مخلوقِ الٰہی ہے سامان محمد کا



پاتے ہیں سبھی صدقہ اُن کے دَرِ اَقدس سے ہر ذَرَّۂ عالم ہے مہمان محمد کا



ہوتی ہے ہر اِک نعمت تقسیم مَدینے سے کونین میں جاری ہے فیضان محمد کا




Get it on Google Play



دیتے ہیں مَلک پہرہ سرکار کے رَوضے پر جبریلِ مُعَظَّم ہے دَربان محمد کا



عالم ہے اگر شیدا ان پر تو تعجب کیا خود چاہنے والا ہے رحمٰن محمد کا



شاہانِ جہاں کیونکر رکھیں نہ سر آنکھوں پر فرمانِ الٰہی ہے فرمان محمد کا



حور و مَلک و غلماں جن و بشر و حیواں لیتے ہیں سبھی سر پر فرمان محمد کا



طیبہ کو جو جاتا ہے کہتے ہیں مَلک باہم لو دیکھو وہ آتا ہے مہمان محمد کا



تکلیفِ سفر سے تو دِل تنگ نہ ہو زائر برسے گا ترے اُوپر باران محمد کا



رُویا میں نہ دیکھا گر وہ چہرۂ نورانی لے جاؤں گا دنیا سے اَرمان محمد کا



افسوس کہ اے بلبل تو نے نہ کبھی دیکھا بے خار ُگلستاں ہے بُستان محمد کا



کیوں چاک ہو غم سے دِل کیوں فوجِ اَلم گھیرے سر پر ہے غلاموں کے دامان محمد کا



دنیا کی سبھی باتیں مٹ جائیں مرے دل سے ہو وِردِ زباں کلمہ ہر آن محمد کا



جب مَدْح و ثنا حق نے قرآن میں فرمائی کیا منہ ہے جو واصف ہو انسان محمد کا



تقدیر جمیلؔ اپنی شاہوں سے رہے بڑھ کر سگ اپنا بنائے گر دربان محمد کا

Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah