یوں نبھائی حق سے اپنی دوستی شبیرؑ نے وار دی کرب و بلا میں زندگی شبیرؑ نے
جگمگاتا ہی رہے گاجس کی کرنوں سے جہاں اپنے سجدوں سے وہ دے دی روشنی شبیر نے
تھا کھٹنتا غلبۃ اسلام اُن کی آنکھ میں اُن کےاندرکی شقاوت دیکھ لی شبیرنے
اپنے نانا کی محبت اور عظمت کے لۓ کوۓ بطحا جیسی چھوڑدی شبیر نے
ایسی کلیاں جن کی قسمت میں کبھی کھلنا نہ تھا بخش دہ اُن کو لہو سے تازگی شبیر نے
کربلا کی خاک کو قدسی بھی آۓ چومنے اس طرح کی اُس زمیں پر بندگی شبیر نے
سر کٹے جوکربلا میں ان سےناصرؔہےعیاں موت کو جانا ہے شانِ زندگی شبیر نے