دل نے کہا مجاہد ملت کو ڈھونڈئیے لے کر چراغ شاہِ ولایت کو ڈھونڈئیے
میں نے کہا کہ سن اے دلِ مبتلائے غم اپنی یہ کب مجال کہ پاجائیں ان کو ہم ہم زیر آسماں انہیں یوں دیکھتے رہے وہ کب کے آسماں کے پرے خلد میں گئے
تم کیا گئے مجاہد ملت جہاں گیا عالم کی موت کیا ہے عالم کی ہے فنا
میں رحلت مجاہد ملت کو کیا کہوں یوں سمجھو گر گیا کوئی اسلام کا ستوں ہر سو یہ کہہ رہے ہیں عنادِل چمن چمن اے بلبل مدینہ کہاں ہے تو خوش دہن وہ یادگارِ حجۃالاسلام اب نہیں اندوہگیں ہے آج شبستانِ علم دیں
نسرین گلستان آں صدرالشریعہ بود بوئے خودش گذاشتہ اندر چمن بود
خورشید سنّیت نے اَہ چادر جو اوڑھ لی ظلمت میں قافلے کی وہ رفتار تھم گئی
پیک ندیٰ و غفراں، ان کی وفات تھی اخترؔ خوشی مناؤ وصال حبیب کی