اللہ رے کیا بارگہِ غوثِ جلیؓ ہے گردن کو جُھکاۓ ہوۓ ایک ایک ولی ہے
وہ ذات گُلستانِ رسالتؐ کی کلی ہے نَورُستہ گُلِ گُلشنِ زہراؑ و علیؑ ہے
اولادِ حسنؑ ، آلِ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے بیشک شہِؓ بغداد ، ولی اِبنِ ولی ہے
سب اُن کی عنایت ہے ، خفی ہے کہ جلی ہے ہر رسمِ کرم اُن کے گھرانے سے چلی ہے
جس دل پہ نظر اُن کی ہو ، وہ روشن و بینا اُن کو جو پسند آۓ ، وہی بات بَھلی ہے
ہوں نقشِ قدم جس پہ نبیؐ اور علیؑ کے اُس در پہ کسی کی نہ چلے گی ، نہ چلی ہے
اک سلسلۂ نُور ہے ہر سانس کا رشتہ ایمان مِرا حُبِّ ِنبیؐ ، مہرِ علیؑ ہے
اُس ذات سے شاہی کے قرینے کوئی سیکھے وہ ذات کہ جو فقر کے سانچے میں ڈھلی ہے
مجھ کو بھی محبّت ہے بہت ، بادِ صبا سے کیوں کر نہ ہو آخر ترے کُوچے سے چلی ہے
مُشکل ہوئی آسان ، لیا نام جو اُن کا یُورش غم و آفت کی مِرے سَر سے ٹلی ہے
محشر میں وہی غازۂ انوار بنے گی مٹّی تِرے کُوچے کی جو چہرے پہ مَلی ہے
ہر گام پہ سجدے کی تمنّا ہے جبیں کو یہ کِس کا درِ ناز ہے ؟ یہ کِس کی گلی ہے؟
جو نُور ہے بغداد کی گلیوں کا اُجالا ہر ایک کرن اُس کی مدنیے سے چلی ہے
مَیں اُن کا ہُوں تا حشر نصیرؔ اُن کا رہُوں گا صد شُکر کہ اُن سے مِری نسبت اَزَلی ہے