وہ لا محدود ہے بیرون ہر منزل میں رہتا ہے یہ دل بھی لامکاں ہے اس لیے اس دل میں رہتا ہے
وہ خالق بھی زمانے کا زمانہ بھی ہے نام اس کا وہ ہر ماضی میں ہر اک حال و مستقبل میں رہتا ہے
شکست و فتح آنسو قہقہے ٗ احکام ہیں اس کے وہی لا حاصلی میں ہے وہی حاصل میں رہتا ہے
پہنچتا ہے وہی اس تک ، جو کر لے پار ذات اپنی وہ رہنے کو تو ہر دریا میں ہر ساحل میں رہتا ہے
لگا لیتی ہے دانشمندیِ مومن سراغ اس کا وہ اک حل کی طرح ہر عقدہء مشکل میں رہتا ہے
مظفر ہم جب اس کے ذکر کی محفل سجاتے ہیں چراغوں کی طرح وہ گرمیِ محفل میں رہتا ہے