نگاہ دنیا لگے گی دنیا حرم لگے گی کرو گے جتنی خدا کی تعریف کم لگے گی
رکھیں گے اپنی جبیں جو سجدے میں اس کے آگے تو خود ہمیں اپنی حثیت محترم لگے گی
مٹاؤ گے بھوک کس طرح زندگی کی آخر تلاشِ پروردگار، خالی شکم لگے گی
کریں گے ہر حال میں جو شکر اس کا اس کے بندے زیادتیِ جہاں بھی اس کا کرم لگے گی
قصیدہ حمدیہ میں اس شان سے لکھوں گا دوات آنسو لگیں گے شہ رگ قلم لگے گی
جو اُس کی خوشنودیوں کو پیش نظر نہ رکھّا تبّسموں کی لکیر بھی موجِ غم لگے گی
کریں گے انکار ہم اگر یوم آخرت کا وجودیت بھی برابریِ عدم لگے گی
عمل کے سکّے اگر وہاں چل گئے مظفر تو یہ رقم ہم کو سب سےبھاری رقم لگے گی