میرے احساس میں تو ہے مرے کردار میں تو پیاس سے بڑھ کے ہے پیمانہء اقرار میں تو
اختیارات بھی لیتے ہیں اجازت تجھ سے سر میں تو سر پہ سجائی ہوئی دستار میں تو
دیدہء ظاہر و باطن سے تجھے پہچانا پردہء خاک میں تو شاخِ ثمر دار میں تو
اپنی آنکھوں میں لگاؤں تجھے سرمے کی طرح نظر آجائے اگر کوچہ و بازار میں تو
دیکھنے والی نظر دیکھ رہی ہے تجھ کو آئنہ آ ئنہ تو پردہء اَسرار میں تو
مختلف زاویوں سے دیکھ رہا ہوں تجھ کو دن میں تو رات میں تو پھول میں تو خار میں تو
رونق شام و سحر ہے ترے حرفِ کُن سے فاصلہ فاصلہ تو وقت کی رفتار میں تو
زندگی آب و ہوا رزق اجل سب کے لئے اپنے منکر میں ہے تو اپنے طلب گار میں تو