زبانِ عشق سے شرحِ صفات پھر نہ ہوئی تمام عمر کہی نعت، نعت پھر نہ ہوئی
غریب فکر ہوں آقاؐ معاف کر دیجیے جو بات کہہ نہ سکا تھا وہ بات پھر نہ ہوئی
اسی لئے تو محمدؐ کی ناؤ میں بیٹھا کسی بھنور کسی طوفاں سے مات پھر نہ ہوئی
چلا حضورؐ کی آواز تھام کر جب سے مفاہمت کسی لغزش کے ساتھ پھر نہ ہوئی
کرم کی ایک نظر بن گئی نصیب مرا غم زمانہ و فکر نجات پھر نہ ہوئی
حضور نے ہمیں شائستہء شعور کیا تھی پہلے جتنی پریشاں حیات ٗ پھر نہ ہوئی
کچھ اس طرح مرا خیر الورٰی طلوع ہوا یقین و صدق کے آنگن میں رات پھر نہ ہوئی
چڑھا تھا روپ جو سلطان حسن کے ہوتے مظفّر اتنی حسیں کائنات پھر نہ ہوئی