یوں با ادب کھڑا ہوں میں روضے کے سامنے جیسے کوئی ستون ہو حجرے کے سامنے
آیا ہے نام آپؐ کا میری زبان پر تو معتبر ہوا ہوں زمانے کے سامنے
اندر کی آنکھ سے انھیں یوں دیکھتا رہوں لاہور جس طرح ہو مدینے کے سامنے
اسلوبِ تربیت یہ مرے مصطفؐےٰ کا ہے باطن بھی رکھ دیا مرے شیشے کے سامنے
تھوڑی سی جگہ دے دیں مجھے بھی ملائیکہ منبر کے آس پاسٗ مصّلے کے سامنے
کچھ اور بھی ہو چشمہء فیضان سے عطا دریا تو ایک بوند ہے پیاسے کے سامنے
ہیں ساری زندگی کی نمازیں کھڑی ہوئی اُس شہر میں کئے ہوئے سجدے کے سامنے
ہر وقت یوں نگاہ میں رہتی ہے زندگی نقشہ ہو جیسے قبر کا بوڑھے کے سامنے
قدموں کے ساتھ میں بھی مظفر پڑا رہوں بوبکر جیسے آپ کے سینے کے سامنے