Woh Din Bhi The

وہ دن بھی تھے کہ سرابوں کا نام ساحل تھا نہ کائنات کی آنکھیں نہ وقت کا دل تھا



بدی کا غلغلہ تھا ظلم پر جوانی تھی درندگی و جہالت کی حکمرانی تھی



گمان و وہم کا نام اعتبار رکھا تھا خدا کو مورتیوں میں اتار رکھا تھا



کوئی نظارہء دلکش نہ تھا نظر کے لیے ترس رہا تھا جہاں افضل البشر ؐ کے لیے



ورود خاور نو آمنہ کے گھر میں ہوا نبیؐ کا حسن بھی شامل ہر اک سحر میں ہوا



فرشتے آپؐ کو جھولا جھلانے آتے تھے درود پڑھتے ہزاروں زمانے آتے تھے



پلٹ کے چاند اسی سمت سے فدا ہوتا جدھر اشارہء انگشت مصطفےؐ ہوتا



وہ بکریاں بھی بڑے ہی نصیب والی تھیں جو فیضیابِ حصارِ حضورؐ عالی تھیں



بڑے ہوئے تو کیا کاروبار کپڑے کا بنائے عقد بنا کاروبار کپڑے کا



مرے حضورؐ پہ جب وحیِ اولیں اتری دلِ خدیجہ پہ بھی روشنیِ دیں اتری



کیا علی نے بھی اقرار یار غار کے بعد قدم قدم پہ بہار آئی پھر بہار کے بعد



خدا کا نور جو فاران سے طلوع ہو ا تو ایک سلسلہ اسلام کا شروع ہوا



احد حد کی صدا آئی جب زبانوں پر تو بجلیاں سی گریں کفر کے ٹھکانوں پر



کمانِ ظلم سے بو جہل و بو لہب نکلے دعائیں ہاتھ میں لے کر شہ ِعرب نکلے



ستم مگر ابوسفیان نے بھی کم نہ کئے بلال و زید نے سراپنے پھر بھی خم نہ کئے



نبی نےظلم سہے ساتھیوں نے ظلم سہے مگر بہ حکم خدا صبر کی حدوں میں رہے



ہر اک مصیبت و تکلیف بے دریغ اٹھائی کسی سے ظلم کا بدلہ لیا نہ تیغ اٹھائی



جنہیں شعور نے ایمان کی حرارت دی انھیں حضورؐ نے فردوس کی بشارت دی



کہا یہ آپ نے ، اک روز وہ بھی آئے گا تمہارے پاؤں تلے ہوں گے قیصر و کسریٰ



قبائل آتے رہے اور دین پھلتا رہا چراغ مصطفویؐ آندھیوں میں جلتا رہا



زباں پہ ، اپنے دلوں کی محبتیں لے کر وفود آئے مدینے کی دعوتیں لے کر



بنام شعب ابی طالب بھی ایک گھاٹی تھی خدا کے بندوں کی جس نے حیات چاٹی تھی



جب ان کی بات رسولؐ خدا نہیں مانے تو مل کے عہد کیا مشرکین مکہ نے



نبی سے اور نبیؐ کے ہر اک صحابی سے کسی بھی قسم کا کوئی نہ واسطہ رکھے



صحابیوں کے شکم سوکھ سوکھ جاتے تھے تو اپنی مشکوں کے چمڑے بھگو کے کھاتے تھے



عجیب ظلم و ستم کے محاصرے میں رہے کہ دو برس وہ معاشی مقاطعے میں رہے



مصیبتوں کا انہوں نے پہاڑ کاٹ لیا تو اس معاہدے کو دیمکوں نے چاٹ لیا



بہ اذن سرور کونین، جعفر طیار گئے جو حبشہ تو پہنچا دیئے گئے دربار



نجاشی بولا بتاؤ تمہارا دین ہے کیا؟ کلام کیا ہے ، نبیؐ پر تمہارے جو اترا



سنائی حضرت جعفر نے سورۃ مریم تو سن کے آنکھ نجاشی کی ہوگئی پر نم



کہا امن و سکوں ہے یہاں ، یہیں پہ رہو وفا کے گھر میں محبت کی سرزمیں پہ رہو



نجاشی جیسا بھی کم ہوگا خوش نصیب کوئی نماز اس کے جنازے کی مصطفےؐ نے پڑھائی



مقام حجر پہ اک روز جمع تھے کفار اسی طرف نکل آئے تو گھر گئے سرکار



پکڑ لیا انہیں چادر سمیت دشمن نے اچھال دی مرے آقا، پہ ریت دشمن نے



لگائے زخم جو جسمِ نبیِؐ رحمت پر تو چیخ چیخ اٹھے بو بکر اس اذیت پر



نبیؐ کے قتل کے منصوبے سینہ سینہ ہوئے تو حکمِ حق سے نبیؐ عازمِ مدینہ ہوئے



نکل کے مکے سے جب شاہِ کائنات چلے عقب میں آپ کے دشمن بھی ساتھ ساتھ چلے



پڑاؤ آپ نے جب غار ثور میں ڈالا تو منھ پہ غار کے مکڑی نے بن دیا جالا



ذرا جو خوف ابوبکر کو ہوا ضمنا بڑے سکوں سے کہا مصطفےؐ نے ، لا یحزن



مدینہ پہنچے تو سب خیر مقدی آئے ہر اک زبان پہ تھا، چاند سے نبیؐ آئے



مہاجروں سے وہ انصار نے سلوک کیا مثال لا نہ سکی جس کی آج تک دنیا



دھڑکنے لگ گئے دہ دل ہر ایک سینے میں دکھائی دینے لگا مکہ بھی مدینے میں



زمین بانٹ لی آپس میں ، گھر بھی بانٹ لئے محبتوں کی طرح مال و زر بھی بانٹ لئے



سبھی رضائے خدا و نبیؐ کے تھے بھیدی کسی کے پاس تھیں دو بیویاں تو اک دے دی



تمام چہرے بنامِ رسولؐ کھلنے لگے سیاہیوں میں اجالوں کے پھول کھلنے لگے



کچھ ایسے سیدھا کیا ہر طبیعتِ کج کو ملا دیا مرے آقا نے اوس و خزرج کو



ہوا یہ فیصلہء خوشنما بھی غیر کے ساتھ رہیں گے مل کے مسلماں بنو نضیر کے ساتھ



رگِ تحفظِ طیبہ میں خون بھرنےکا معاہدہ ہوا مل کر دفاع کرنے کا




Get it on Google Play



برائیوں کا تصور خروج کو پہنچا نصیب خلق و شرافت عروج کو پہنچا



ہوا دیار نبی ؐ فتح تو یہ بولے نبی ؐ نہ ہوگی آج کسی سے بھی باز پرس کوئی



نہ ہو وہ خوف زدہ جس نے ہم پہ کی بیداد خدا گواہ کہ ہر شخص آج ہے آزاد



معاف کرتا ہوں ہندہ کو ، وہ بھی اب نہ ڈرے مگر یہ کہہ دو مرے سامنے نہ آیا کرے



جو گھر میں ہو ابو سفیان کے اسے بھی اماں جو آئے سائے میں ایمان کے اسے بھی اماں

Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah