والیِ دیدہ و دل ، ماحی و حاشر میرے تیرے محکوم ہیں مخفی و مظاہر میرے
تیری دہلیز کی خیرات ، مرا شوق و طلب تیری خوشبو تری آواز مناظر میرے
اپنے قدموں سے سرافراز مجھے بھی فرما میں بھی چھوٹا سا مدینہ ہوں مہاجر میرے
تیرے بازار میں بکنے کے لئے آیا ہوں کاتبین اور نکیرین ہیں تاجر میرے
جسم میرا ہے یہاں ٗ سانس وہاں لیتا ہوں سبز گنبد کی طرف اڑتے ہیں طائر میرے
دوڑ جائیں تری شیرینیاں شریانوں میں کاش جالی کی تری ہونٹ چھوئیں پھر میرے
میری بینائی کسی اور کی مقروض نہیں مجھ میں ہیں صرف ترے رنگ مصوّر میرے
نام ہوگا مرا ، فہرستِ کرم میں ان کی میں غلام اُن کا ہوں آقا ہیں وہ آخر میرے
میرا ہر سانس مظفر ہے انہی کا صدقہ مالا مال ان کی محبت سے ، ذخائر میرے