تم سے جو گریزاں ہے فرزانہ وہ دیوانہ شیدا جو ہوا تم پر دیوانہ وہ فرزانہ
آجا دلِ ویراں میں تیرا ہو یہ کاشانہ للّہ کرم فرما اے جلوہؑ جانانہ
آنکھوں سے پِلا وہ مے سرمست رہوں جس سے بھر دے میرا پیمانہ اے ساقئ میخانہ
وہ ابرِ بہار آیا ہر شے پہ نکھار آیا لا جلد میرے ساقی دے ساغر و پیمانہ
کیا رات کے پردے سے چپکے سے سحر نکلی یا جانِ دل آرا نے زلفوں میں کیا شانہ
بدکار صحیح لیکن بندہ ہوں تیرے در کا محروم نہ رکھ مجھ کو اے شانِ کریمانہ
یوں تھام کے دامن کو مچلا ہے سرِ محشر دیکھے کوئی اختر کا یہ نازِ غلامانہ