تری شان بو ترابی مرا ذوق خاک بازی ترے آستاں پہ لائے مجھے تیری دل نوازی
مَیں نکل گیا خرد سے مَیں جنونِ باخبر ہوں میری زد میں لامکاں ہے میرا کام شاہبازی
تُو ہے ساقئِ زمانہ مَیں ہوں رندِ جادوانہ ہو عطا، مئے شبانہ ، کہ جُھکے ترا نمازی !
ترے نقشِ پا کا سجدہ میری بندگی کا حاصِل اسی بندگی سے رومؔی ، اسی بندگی سے رازی
تیری یاد کا ولی ہوں کہ مَیں واصؔفِ علی ہوں نہ خفی ہوں نَے جلی ہوں مَیں ہوں حرفِ بے نیازی