سنگِ درِ حبیب ہے اور سر غریب کا کس اوج پر ہے آج ستارہ نصیب کا
پھر کس لئے ہے میرے گناہوں کااحتساب جب واسطہ دیا ہے تمہارے حبیبؐ کا
راہِ فراق میں بھی رفیقِ سفر رہا زخمِ جگر نے کام کیا ہے طبیب کا
منصور ہے نہ کوئی مسیحا نظر میں ہے کیا بے محل ہے تذکرہ دار و صلیب کا
رکھتا ہے بے ادب بھی یہاں زعم آگہی یہ حال ہے تو حال نہ پوچھو ادیب کا
یہ بارگاہِ حُسنِ دو عالم نہ ہو کہیں ہے پاسباں رقیب یہاں کیوں رقیب کا
واصفؔ علی تلاش کرے اب کہاں تجھے دُوری کو جب ہے تجھ سے تعلق قریب کا
فِدَاكَ اَبِی وَاُمِّی وَرُوحِی وَقَلبِی یَاسَیِّدِی یَارَسُول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم