تیری چوکھٹ پہ جو سر اپنا جھکا جاتے ہیں ہر بلندی کو وہی نیچا دکھا جاتے ہیں
سرفرازیٔ اجل ان کو ملا کرتی ہے نخوتِ سر جو ترے درپہ مٹا جاتے ہیں
ڈوبے رہتے ہیں تیری یاد میں جو شام و سحر ڈوبتوں کو وہی ساحل سے لگا جاتے ہیں
اے مسیحا ترے بیمار ہیں ایسے بیمار جہاں بھر کا دکھ درد مٹا جاتے ہیں
مرنے والے رخِ زیبا پہ ترے جانِ جہاں عیش جاوید کے اسرار بتا جاتے ہیں
آسماں تجھ سے اٹھائے نہ اٹھیں گے سن لے ہجر کے صدمے جو عشاق اٹھا جاتے ہیں
ذکر سرکارا بھی کیا آگ ہے جس سے سنی بیٹھے بیٹھے دلِ نجدی کو جلا جاتے ہیں
جن کو شیرینیٔ میلاد سے گھن آتی ہے آنکھ کے اندھے انہیں کوا کھلا جاتے ہیں
دشت طیبہ میں نہیں کیل کا کھٹکا اخترؔ نازک اندام وہاں برہنہ پا جاتے ہیں