ترے عاشقوں کا ہے عاشق زمانہ فقیروں کے انداز بھی خسروانہ
شہا، میری آنکھوں میں آنسو نہیں ہیں یہ کشت جدائی کا ہے آبیانہ
زباں پر ہیں تیری محبت کے دعوے مگر اپنے کردار ہیں باغیانہ
ترے راستوں میں فنا ہونے والے عبادت بھی کرنے لگے تاجرانہ
جو کرتے ہیں دنیا کی منصوبہ بندی وہ ہیں اپنی ہی سازشوں کا نشانہ
وہ خائف ہیں باطل کی چنگاریوں سے بناتے تھے جو برق پر آشیانہ
بد ن ایک چہرے ہیں دو دو ہمارے سخن نا صحانہ عمل غاصبانہ
نکلنا ہے آقا ہمیں سب سے آگے ہمیں کیجئے سوئے ماضی روانہ