سایہ بھی مرا چل نہیں سکتا مرے آگے قرآں مرے ہاتھوں پہ ہے آقاؐ مرے آگے
لمحے کی تجوری میں ہیں صدیوں کے جواہر ماضی کی طرح چلتا ہے فردا مرے آگے
پنگھٹ پہ محمدؐ کے کھڑا رہتا ہوں شب بھر پانی بھرا کرتا ہے سویرا مرے آگے
پڑھتا ہوں تو آنکھوں سے چمٹ جاتے ہیں الفاظ دیباچہء محشر ہے یہ دنیا مرے آگے
جب آپؐ کے رستے کا سفر میں نے کیا ہے دیوار نے بھی رکھ دیا کاندھا مرے آگے
اتنا در سرکار سے سیراب ہوا ہوں دریا بھی نظر آتا ہے پیا سا مرے آگے
تنہا تو نہ تھا میں سفر عشق نبیؐ میں رستہ بھی محافظ کی طرح تھا مرے آگے
امید مرے خوف پہ حاوی ہے مظفر پیچھے ہے مرے موت مسیحا میرے آگے