صدفِ نُورِ الہٰی کا گُہر کیا ہوگا صرف خالق جو نہیں تھا وہ بشر کیا ہوگا
اُس کی کِرنوں سے ہر اِک آنکھ لپٹتی ہوگی مطلعِ جسم کا اندازِ سحَر کیا ہوگا
منزلیں بانٹنے آیا تھا جو گمراہوں کو اُس جہاں ساز کی ہجرت کا سفر کیا ہوگا
لیے پھرتا ہُو ں مُحمّؐد سا حسیں آنکھوں میں ذرا سوچو تو مِرا حُسنِ نظر کیا ہوگا
جسم اطہر کو چُھوئے خاکِ زمیں ، نا ممکن عرشِ ثانی کے سوا زیرِ کمر کیا ہوگا
آنے والوں پہ جو قسمت کی طرح کُھلتا ہو حرمِ پاکِ مُحمّؐد کا وہ دَر کیا ہوگا
کون کر سکتا ہے دشمن کو معاف اس کی طرح اور کوئی اس کی طرح سینہ سپر کیا ہوگا
نعت سے لوگ پر کھتے ہیں مظفؔر مُجھ کو اس سے بڑھ کر مرا معیارِ ہُنر کیا ہوگا