پتّھروں کی پُجاری تھی صدیوں سے جو وُہ غبی قوم جو یائے ربّ ہوگئی
کیا تو پیاسی تھی اِسلام کے خُون کی کیا ثنا خوانِ اُمّی لقب ہوگئی
گمراہی خُود بتا نے لگی راستہ وادی ئ نُور ، دُنیائے شب ہو گئی
دشمنِ دیں ، بنے پاسبانِ حَرَم دُور ، تفریقِ رنگ و نسب ہوگئی
لا لہ و گُل مہکنے لگے آگ میں رشکِ جنّت زمینِ عرب ہوگئی
بے مہاروں نے تھامی عنانِ جہاں جاہلیّت ، امیرِ اَدب ہو گئی
پڑ گئی جس پہ وُہ آسمانی نظر اُس کی دُنیائے دِل ہی عجب ہوگئی