نت نئی ایک الجھن ہے اف غم روزگار کا عالم ہے
کیف و مستی میں غرق یہ دنیا جانے کیا دل فگار کا عالم
اے خدا تجھ پہ خوب ظاہر ہے ہے جو مجھ سوگوار کا عالم
جانِ گلشن نے ہم سے منہ موڑا اب کہاں وہ بہار کا عالم
اب کہاں وہ چھلکتے پیمانے اب کہاں وہ خمار کا عالم
ہائے کیا ہوگیا گھڑی بھر میں وہ شکیب و قرار کا عالم
دارِ فانی سے کیا غرض اس کو جس کا عالم قرار کا عالم
اب وہ رنگینیاں نہیں یا رب کیا ہوا بزمِ یار کا عالم
یاد آتا ہے وقت غم اخترؔ رخصت غم گسار کا عالم