مجھ کو دنیا کی دولت نہ زر چاہیے ماہ طیبہ کی میٹھی نظر چاہیے
ہاتھ اٹھتے ہی بر آۓ ہر مدعا وہ دعاؤں میں میری اثرچاہیے
عاشقان نبی کےہےدل کی صدا سبز گنبد کےساۓمیں گھرچاہیے
ذوق آتا رہے اشک بہتے رہیں مضطرب قلب اور چشم ترچاہیے
رات دن عشق میں تیرے تڑپا کروں یا نبی ایسا سوز جگر چاہیے
یا خدا جسم سے جان جب ہو جدا جلوۃِ یار پیش نظر چاہیے
مجھ کو طیبہ میں دوگززمیں دیجۓ بس نہ کچھ اور خیر البشر چاہیے
ہم غریبوں کو روضہ پہ بلوایۓ راہ طیبہ کا زاد سفر چاہیے
اپنے عطار کو درپہ بلوایۓ اذن طیبہ کا بارِ دگر چاہیے