محمد مصطفیٰ آۓ بہاروں کا سماں آیا بجھےدل کھل اٹھےہرسوتڑپتوں نےسکوں پایا وہ آۓ جن کی خاطر لوح وکرسی نے جلا پائی بشارت ان کی دینے بام پر خورشید لہرایا ہوئی کافور یوں ظلمت، اندھیرے چھٹ گۓ سارے زمیں وآسماں پرچھا گیا انوار کا سایہ تمہارا کوں ہےحامی؟ جوپوچھا، بےنوا بولے محمدؐ کے سوا کوئی نہ آۓ گا نہ ہے آیا بھٹکتوں راہ گم کردہ ض،یروں کا چلن بدلا گۓ گزروں کوپھرسےراستہ''اقراء'' کادکھلایا صنم گر، بت شکن بن کربنے رہبر زمانے کے نشہ توحید کادے کردلوں کو ایسا گرمایا انہی کاتھام لو دامن اسی میں سرخروئی ہے وہی سچ ہے وہی مانو انہوں نے جو ہےفرمایا نہیں دنیا کی دولت کی ہمیں پرواہ ہمزالیؔ محمدؐ کی محبت کا ہمیں کافی ہے سرمایا