مفصلِّ حسنِ زندگی ہے خلاصہ کائنات ہے تو نصیب ہے تو نصاب ہے تو ثبوت ہے تو ثبات ہے تو
ہوا کے جھونکے بھی چل رہے ہیں چراغ بھی مجھ میں جل رہے ہیں مری محبت کا تو محافظٗ مرے ارادوں کے ساتھ ہے تو
شہود عالم کی اصل تو تھا وجودِ آدم سے قبل تو تھا زمیں کے نیچے بھی تو ہے زندہ ، حیات بعد الممات ہے تو
قبائے عصیاں رفو کرے گا ٗ مری شفاعت بھی تو کرے گا مرا شعور یقین تو مرا یقین نجات ہے تو
ہے نورِ خلّاق ظرف تیرا ، چراغ ہے حرف حرف تیرا پڑھے گی تاحشر جس کو دنیا خدا کی وہ کلیّات ہے تو
ہر ایک دھڑکن تری مثالی ہے لمحہ لمحہ ترا سوالی سکھائے جو عجز و انکساری وہ صاحب معجزات ہے تو
ترا تصور بھی اک مصلیٰ عظیم تجھ سے فقط ہے اللہ سُنے مظفر پڑھے مظفر اذان ہے تو صلوٰۃ ہے تو