مبارک ہو وہ شہہ پردے سے باہرہونیوالا ہے گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے
فقیروں سے کہوحاضرہوں جو مانگیں گے پائیں گے کہ سلطانِ جہاں محتاج پرور آنے والا ہے
کہاں ہیں ٹوٹی امیدیں کہاں ہیں بے سہارے دل کہ وہ فریاد رس بے کس کا یاور آنے والا ہے
ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا سہارا بے سہاروں کا غریبوں کی مدد بیکس کا یاور آنے والا ہے
گنہگارو نہ ہو مایوس تم اپنی رہائی سے مدد کو وہ شفیع روزِ محشر آنے والا ہے
سلاطینِ زمانہ جس کےدرپربھیک مانگیں گے فقیروں کو مبارک وہ تونگر آنے والا ہے
بر آئیں گی مرادیں حسرتیں ہو جائیں گی پوری کہ وہ مختارِ کل عالم کا سرور آنے والا ہے
حسنؔ کہدیں اٹھیں سب امتی تعظیم کی خاطر کہ اپنا پیشوا اپنا پیمبر آنے والا ہے