میری ہر سانس پر اُس کی مہر نظر میرے ہونٹوں پر کھلتا ہوا بھی وہی ساتھ بھی اس کے ہوں اس کو طے بھی کروں قافلہ بھی وہی راستہ بھی وہی
راز ہستی اُن آنکھوں سے ظاہر ہوا افتتاح جہاں اُس کی خاطر ہوا خاکداں کے علم اُس کے نقش قدم سدرۂ سدرۃ المنتہا بھی وہی
قول تحقیق ہے فعل تصدیق ہے کیوں نہ ہو علم کا وہ اتالیق ہے اس کا اُمی لقب اور سراپا ادب فلسفی بھی وہی فلسفہ بھی وہی
کتنے لوگوں کا احساں ہے تاریخ پر ایسا انسان کوئی دکھائے مگر سر پہ بار ستم سنگ بستہ شکم ساری دنیا کا فرمانروا بھی وہی
روشنی ازل کا حوالہ بھی وہ مطلع آخری کا اجالا بھی وہ وقت اور فاصلے اس کے محور تلے لامکانی کا جغرافیہ بھی وہی
پوری انسانیت اُس کی ممنون ہے وہ عدالت ہے منصف ہے قانون ہے مصلح ہر زماں بے اماں کی اماں مردہ روحوں کا دارالشفا بھی وہی
فکر ہے عاقبت کی مظفر اگر جس پہ آقا چلے چل اُسی راہ پر جس میں ہوگی رضائے شہ انبیاء حکم صادر کرے گا خدا بھی وہی