خداوندِ جہاں جب خود ہے پیارا تیری صورت کا تو عالم کیوں نہ ہو بندہ ترے حسن و مَلاحت کا
شرف حاصل ہوا سرکار تم سے جس کو بیعت کا اُسے ُمژدہ مِلا حق سے دُخولِ قصرِ جنت کا
جو خالی ہاتھ آتے ہیں مرادیں لے کے جاتے ہیں تمہارے دَر پہ اِک میلا لگا ہے اَہلِ حاجت کا
جو ہاتھ اُٹھا ہوا ہے ساری خلقت کا تری جانب بتاتا ہے کہ تو قاسم ہے رب کی جملہ نعمت کا
زمیں سے عرش تک گونجے دو عالم پڑ گئی ہلچل بجا کعبہ میں نقارہ جو سلطانِ رِسالت کا
کہیں صحرا میں موج آئی کہیں دَریا میں گرد اُٹھی کہیں بت ہوگئے اوندھے عجب عالم تھا شوکت کا
بتوں کو پوجنے والے بنے دَم میں خدا والے زبانِ پاک سے جس دَم سنا دعویٰ نبوت کا
خدا کے نام کو پھیلا دیا سارے زمانہ میں مچا تھا شور دنیا میں بہت شرک و ضلالت کا
وہ اپنی روشنی سے جگمگا دیتا ہے دنیا کو قمر پر ایک پرتو پڑ گیا تھا ان کی طلعت کا
تو وہ پیارا خدا کا ہے کہ پیارے تیرے صدقے میں ہوا سب اُمتوں سے فضل بڑھ کر تیری اُمت کا
اسی امید پر ہے زندگی عشاقِ حضرت کی کبھی تو عمر میں ہوگا نظارہ اُن کی تربت کا
مرا دل ہے مدینے میں مدینہ میرے دل میں ہے کھچا سینہ میں ہے نقشہ حبیبِ حق کی تربت کا
کرے گر اِستغاثہ آپ کے دَر پر نہ یہ بندہ تو پھر کس کو سنائے جا کے اَفسانہ مصیبت کا
تمہارے گیسوئے مشکیں کی کچھ ایسی گھٹا چھائے برس جائے خدارا ہم پہ جھالا اَبرِ رَحمت کا
یہ بے کھٹکے گنہگاروں کا داخل خلد میں ہونا کرشمہ ہے رَسُوْلُ اللہ کی چشمِ عنایت کا
گنہگارو چلو دوڑو کہ وقت آیا شفاعت کا وہ کھولا نائبِ رحمٰن نے دروازہ جنت کا
اِشارے سے قمر کے دو کیے سورج کو لوٹایا زمیں سے آسماں تک شور ہے مولیٰ کی طاقت کا
تَعَالَی اللہ بحکمِ حق فرشتے چرخ سے آکر تماشا دیکھتے تھے جنگ میں مولیٰ کی طاقت کا
وہ ہے زورِ ید اللہی کہ ہمسر دونوں عالم میں نہ کوئی اُن کی قوت کا نہ کوئی اُن کی طاقت کا
رہے گا روز اَفزوں آپ کا شہرہ قیامت میں بلاغت کا فصاحت کا شجاعت کا سخاوت کا
غزل اِک اَور بھی پڑھ اے جمیلِؔ قادری رضوی کہ تجھ پر فیض ہے احمد رضا پیرِ طریقت کا