خُدا سے کب خُدائی چاہتا ہُو ں مُحمّؐد تک رسائی چاہتا ہُوں
خُدا شاہد ہے ، روزِ ابتدا سے مَیں اُن کو انتہائی چاہتا ہُوں
مجھے تسخیر کرنے ہیں زمانے حصارِ مصطفائی چاہتا ہُوں
بٹھا دو مسندِ پائے نبی پر مَیں قُربِ کبریائی چاہتا ہُوں
مِری آنکھوں میں بھر دو رنگ اُن کے قلم میں رُوشنائی چاہتا ہُوں
اسیرِ مصطفےٰ کہہ کر پکارو ! کہ ہر غم سے رہائی چاہتا ہُوں
رہیں ہمراہ وہ سارے سفر میں بس اِتنی رہ نمائی چاہتا ہُوں