خزاں کے مارے ہوۓ جانب بہار چلے قرار پانےزمانے کے بےقرار چلے
وہیں پہ تھام لیا ان کو دستِ رحمت نے نبی کے در کی طرف جب گناہگار چلے
اے تاجدار جہاں اے حبیب رب کریم وہ بھیک دو کہ غریبوں کا کاروبار چلے
ہمارے پاس ہی کیا تھا جو نزرکرتے انہیں بس ایک دل ےتھا جسےکر کےہم نثارچلے
ریاض ان کے کرم سے ہوئی ہے جیت اپنی وگرنہ بازی تھے ہم زندگی کی ہار چلے