خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا کردار تو رہتے ہیں وہاں قد نہیں رہتا
دربار تہِ خاک لگا کرتے ہیں کتنے گنبد میں فقط صاحب گنبد نہیں رہتا
شرکت کو اگر انکی الگ کردیا جائے تخلیقِ جہاں کا کوئی مقصد نہیں رہتا
ایمان ہے میرا کہ وہ زندہ ہیں حرم میں زندہ کا جو مسکن ہو وہ مرقد نہیں رہتا
جو محسن ِ انسانیت ان کو نہیں مانے انسان تو وہ کتنے بھی فیصد نہیں رہتا
سینے پہ بھی لگ جاتی ہے اک مُہرِ الٰہی ہونٹؤں پہ فقط بوسہء اسود نہیں رہتا
جو اپنے غلاموں میں بھی سلطانیاں بانٹے وہ خاک نشیں خوگرِ مسند نہیں رہتا
توبہ کی بھی توفیق عنایت ہے خدا کی ہوجائے جو باغیِ بدی، بد نہیں رہتا
جو عشقِ محمدؐ سے ہو سرشار مظفر اس دل میں "یقیں" رہتا ہے "شاید" نہیں رہتا