جو ان کی طرف مری چشم التفات نہیں کوئی یہ ان سے کہے چین ساری رات نہیں
بجز نگاہِ کرم کے تو کچھ نہیں مانگا بگڑتے کیوں ہو بگڑنے کی کوئی بات نہیں
بہت ہیں جینے کے انداز پر مرے ہمدم مزہ نہ ہو جو خودی کا تو کچھ حیات نہیں
بوقت نزع یاں للچا کے دیکھتا کیا ہے یہ دارِفانی ہے راہی اسے ثبات نہیں
اٹھا جو اخترؔ خستہ جہاں سے کیا غم ہے مجھے بتائو عزیزو! کسے ممات نہیں