جو مدینے کے تصوُّر میں جِیا کرتے ہیں ہر جگہ لطف مدینے کا لیا کرتے ہیں
عشقِ سرور میں جو ہستی کو فنا کرتے ہیں بھید الفت کے فَقَط اُن پہ کُھلا کرتے ہیں
مال ودولت کی دعا ہم نہ خدا کرتے ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں دعا کرتے ہیں
آگ دوزخ کی جلا ہی نہیں سکتی ان کو عشق کی آگ میں دل جن کے جَلا کرتے ہیں
دُرِّ نایاب بِلاشک ہیں وہ ہیرے انمول اشک آقاکی جو یادوں میں بہا کرتے ہیں
درد وآلام میں تسکین انہیں ملتی ہے نام انکا جو مصیبت میں لیا کرتے ہیں
تُو سلام اُن سے درِ پاک پہ جاکر کہنا التجا تجھ سے ہم اے بادِ صبا کرتے ہیں
کیوں پھریں شوق میں ہم مال کے مارے مارے ہم تو سر کار کے ٹکڑوں پہ پلا کرتے ہیں
سنّتوں کی وہ بنے رہتے ہیں ہر دم تصویر جام جو ان کی محبت کا پِیا کرتے ہیں
سنّتوں کے اے مبلّغ! ہو مبارَک تجھ کو تجھ سے سرکار بڑا پیار کیا کرتے ہیں
آپ کی گلیوں کے کتّوں پہ تصدُّق جاؤں کہ مدینے کے وہ کوچوں میں پِھرا کرتے ہیں
سُن لو! نقصان ہی ہوتا ہے بالآخر ان کو نفس کے واسِطے غصّہ جو کیا کرتے ہیں
بِالیقیں ایسے مسلمان ہیں بے حد نادان جو کہ رنگینیِ دنیا پہ مرا کرتے ہیں
چاند سورج کا مقدَّر بھی تو دیکھو اکثر گنبدِ خَضرا کے نظارے کیا کرتے ہیں
جِھلِملاتے ہوئے تاروں کی بھی قسمت ہے خوب گنبدِ خَضراء کے نظّارے کیا کرتے ہیں
مسجدِ نبوی کے پُر نور مَنارے ہر دم گنبدِ خَضرا کے نظّارے کیا کرتے ہیں
جھوم کر آتے ہیں بارِش لئے بادَل جب بھی گنبد ِخَضرا کے نظّارے کیا کرتے ہیں
بامقدَّر ہیں مدینے کے کبوتر بے شک گنبدِ خَضرا کے نظارے کیا کرتے ہیں
رشک عطارؔ کو ان ذَرَّوں پر آتا ہے جو ان کے نَعلَین کے تلووں سے لگا کرتے ہیں
قابلِ رشک ہیں عطارؔ وہ قسمت والے دَفن جو میٹھے مدینے میں ہوا کرتے ہیں