جل رہے ہیں بدن درد کی دھوپ میں زندگی ڈھل گئی زخم کے روپ میں دل میں کہرام ہے تیرگی عام ہے اِک نگاہِ کرم اے حبیبِؐ خدا المدد مصطفےٰ، المدد مصطفےٰ
ہر نفس خوں اُگلنے لگا ہے بشر اب تو مٹنے لگا فرقِ شام و سحر آنکھ مجبُور ہے رہگزر دُور ہے بے خبر ہے نظر، بے اثر ہے دعا اَلمدد مصطفےٰؐ، اَلمدد مصطفےٰؐ
جَورِ فصلِ خزاں ہے چمن تا چمن زیرِ دستِ اجل، زندگی کی کرن اَز کراں تا کراں بس دھواں ہی دُھواں از اُفق تا اُفق رنج و غم کی گھٹا المدد مصطفےٰؐ، المدد مصطفےٰ
لوگ یوں محو ہیں فِکر دستار میں جیسے خامی نہ ہو کوئی کِردار میں آسماں زرد ہے گَرد ہی گَرد ہے آدمیّت ہے مصروفِ آہ و بکا اَلمدد مُصطفےٰؐ، اَلمدد مصطفےٰؐ
امنِ انسانیت پھر سے مفقود ہے فکر کا آئینہ زنگ آلود ہے جسم سے رُوح تک سیم و زر کی دھنک چاک در چاک ہے اہلِ دل کی قبا المدد مصطفےٰؐ، المدد مصطفےٰؐ
پھر سے اوہام دل کو ہیں گھیرے ہُوئے شہر والوں کے جنگل بسیرے ہُوئے تیرے دریُوزہ گر دَر بدر، دَر بدر کون زندہ کرے رسمِ جُود و عطا ؟ المدد مصطفےٰؐ، المدد مصطفےٰؐ
کافروں کا سِتم پھر ترے دین پر ؟ ظلم کے سائے، ارضِ فلسطینؔ پر سرزمینِ عجم وقفِ رنج و الم خون سے گُلبدن خطّۂ نینوا؟ المدد مصطفےٰؐ، المدد مصطفےٰؐ
خوابِ منزل میں کیوں قافلے سو گئے ؟ تیرے مقداد و میثم کہاں کھو گئے کیا ہُوئے وہ جَری فَقر کے جوھری مُضمحِل ہیں رُتیں، ماتمی ہے فضا اَلمدد مصطفےٰؐ اَلمدد مصطفےٰؐ
پھر گدازِ ابُوذؔر عطا کر ہمیں مثلِ سلمؔان شعلہ نوا کر ہمیں درد کی رات میں غم کی برسات میں ہم فقیروں کو بھی مسکرانا سکھا اَلمدد مصطفےٰؐ، اَلمدد مصطفےٰؐ
تُو ہے سلطانِ جاگیرِ شمس و قمر تُو ہے شہزادۂ وسعتِ بحر و بر اے حکیمِ عرب تُو ہے قرآں بہ لب مقصدِ اَمرِ کن، وارثِ ” ہَلْ اَتیٰ “ اَلمدد مصطفےٰؐ، اَلمدد مصطفےٰؐ