اس قدر تیری حرارت مرے ایمان میں آئے موت بستر پہ نہ آئے مجھے میدان میں آئے
ساری دنیا کے یزیدوں کو مٹا سکتا ہے تیرا ایثار اگر آج کے انسان میں آئے
کوئی کردار حسین ابن علی سالے کر کوئی بھی قوم کسی عہد کے ایوان میں آئے
جب نویں شب کے چراغوں کو بجھا کر دیکھوں تیرے اندر کا اجالا مرے وجدان میں آئے
جس طرح ریت پہ بکھرے تھے محمدؐ زادے اس طرح تو کوئی آندھی بھی نہ کھلیان میں آئے
کربلا اس کے گھرانے کی یہ سب لاشیں ہیں تذکرہ جس کا ہر اک آیہء قرآن میں آئے
جب کسی شمر کا خنجر مجھے للکارتا ہے ضرب شبیر کی آواز مرے کان میں آئے
اس کے جمہور کے لہجے میں دعا مانگتا ہوں ملک میرا نہ الہٰی کسی بحران میں آئے
ہر طرف آج مظفر نہ بہے خون اس کا اپنے اسلاف کا جذبہ جو مسلمان میں آئے