اک روز ہو گا جانا سرکار کی گلی میں ہوگا کبھی ٹھکانہ سرکار کی گلی میں
آنکھیں تو دیکھنے کو پہلے ہی مضطرب تھیں دل بھی ہوا روانہ سرکار کی گلی میں
گو پاس کچھ نہیں ہے لیکن یہ دیکھ لے گا اک دن مجھے زمانہ سرکار کی گلی میں
کبھی ہو حسیں تصور کبھی خود میں جاؤں چل کر رہے یوں ہی آنا جانا سرکار کی گلی میں
ہیں کہیں خزاں کے پہرے کہیں دو گھڑی بہاریں موسم سدا سہانا سرکار کی گلی میں
دل میں نبی کی یادیں لب پر نبی کی نعتیں جانا تو ایسے جانا سرکار کی گلی میں
یہی رسم عاشقی ہے یہی جانِ بندگی ہے سر رکھ کے نہ اٹھانا سرکار کی گلی میں
سمجھیں گے ہم نیازیؔ اُن کی کرم نوازی جس دن ہوۓ روانہ سرکار کی گلی میں