حسرت بھرے دلوں سے ہم آئے ہیں لوٹ کر ہے چاک چاک ہجر میں یہ سینہ و جگر
اچّھا لگے گا اب ہمیں کیسے وطن میں گھر افسوس چھوڑ آئے محمد کا پاک در
ہم کو تو اِس لئے ہے مدینہ عزیز تر اس میں جنابِ رحمتِ عالم ہیں جلوہ گر
ایساسُکون جا کے میں ڈھونڈوں گا اب کدھر! جیسا سُکون تھا مجھے روضے کو دیکھ کر
وہ سبز گنبد اور وہ مینار چُھٹ گئے سرکار کا مدینہ ہم آئے ہیں چھوڑ کر
میٹھا مدینہ ہائے! نگاہوں سے چھپ گیا اے آنکھ! خون رولے تُو رونا ہے جس قَدَر
دل خون اُگل رہا تھا مرا ہجرِ شاہ میں جب چل پڑا تھا شہرِ مدینہ کو چھوڑ کر
اشکوں کی لگ گئی تھی جھڑی میری آنکھ سے چُھوٹا تھا جب مدینہ میں رویا تھا پھوٹ کر
کُوچے میں شاہِ کون و مکاں کے سُکون تھا آتا تھا لطف گنبدِ خَضرا کو دیکھ کر
بہتر ہے موت فُرقتِ طیبہ سے بالیقیں مرجاتا کاش! آقا مدینے کی خاک پر
روتا رہوں تڑپتا رہوں چین ہی نہ آئے غم اپنا ایسا دو مجھے اے شاہِ بحروبر
سوزو گداز اِس کی فَضاؤں میں چار سو پُرکیف و پُرسکون ہے سرکار کا نگر
مجھ کو بقیعِ پاک میں دوگز زمین دو حسنین کے طفیل، مدینے کے تاجور
دنیا کے رنج مَیٹ کے غم اپنا دے اِسے بدکار پر ہو ایسی مِرے مصطَفٰے نظر
عطارؔ کر رہا ہے یہ رو رو کے التجا پھر سے بلائیے گا مدینے میں جلد تر