ہر ذرّہ ء وجود سے اُن کو پُکار کے صحراؤں میں بھی گِیت سُنے آبشار کے
مُجھ کو انھوں نے اپنی پناہوں میں کیا لیا قبضے سے ہی نِکل گیا اپنے مدار کے
مَیں لمحہ لمحہ خرچ کروں اُن سے پُوچھ کر مالک ہیں اب وہی مرے لَیل و نہار کے
آؤ چلو حضور کے دربار میں چلیں میلے لگے ہیں رحمتِ پروردگار کے
یہ کِس کے راستوں کی جمی دُھول جسم پر موسم ٹھہر گئے مِرے اندر بہار کے
آنکھوں پہ ہاتھ کِس کے تصوّر نے رکھ دیا منظر دکھائی دینے لگے آر پار کے
ہر روشنی کو مَیں نے مُرید اپنا کر لیا سینے میں اِک شعاعِ مُحمّؐد اُتار کے
عشقِ رسُول کا یہ مظفّؔر کمال ہے دونوں جہان جِیت لیے خود کو ہار کے