غمِ فُرقت دِلِ عُشّاق کو بے حد رُلاتا ہے تڑپ اُٹھتے ہیں جب اُن کو مدینہ یاد آتا ہے
مجھے اُس کے مُقدَّر پر بڑا ہی رَشک آتا ہے مدینے کی طرف کوئی مُسافِر جب بھی جاتا ہے
مجھے اُس وَقْت دیوانے پہ بے حد پیار آتا ہے غمِ ہجرِ مدینہ میں وہ جب آنسُو بہاتا ہے
یہ بیمارِ مدینہ ہے طبیبو! تم نہ سمجھو گے تڑپتا ہے اِسے جِس دَم مدینہ یاد آتا ہے
دکھا دو سبز گنبد کی بہاریں یارسولَ اللہ نہ جانے کب مدینے کا بُلاوا مجھ کو آتا ہے
مدد سرکار فرماتے ہیں دیوانہ اگر کوئی تڑپ کر یارسولَ اللہ کا نعرہ لگاتا ہے
عطا کردو عطا کردو بقیعِ پاک میں مدفَن مجھے گورِ غریبانِ وطن سے خوف آتا ہے
نہیں ہے چاند سورج کی مدینے کو کوئی حاجت وہاں دن رات اُن کا سبز گنبد جگمگاتا ہے
حُکومت کی طلب دل میں ، نہ خواہِش تاجِ شاہی کی نظر میں عاشِقوں کے بَس مدینہ ہی سماتا ہے
سخاوت بھی ترے گھر کی عنایت بھی ترے گھر کی تِرے دَرکا سُوالی جھولیاں بَھر بَھر کے لاتا ہے
عِبادت ہو تو ایسی ہو ،تِلاوت ہو تو ایسی ہو سرِ شَبِّیر تو نیزے پہ بھی قُراٰں سُناتا ہے
برستی ہے خدا کی اُس پہ رَحمت جھوم کر عطارؔ غمِ محبوب میں جو کوئی دو آنسو بہاتا ہے