دیارِ شب کے لیے قریہء سحر کے لیے نشانِ پا تِرے ہر ایک رہ گزر کے لیے
درود پڑھ کے پہنچ جاؤں تیرے روضے پر سواریوں کی ضرورت نہیں سفر کے لیے
تلاشِ حُسن میں کیو نکر اِدھر اُدھر بھٹکوں تِرا خیال بہت ہے مری نظر کے لیے
محبّت اپنی جب اس دِل کو بخش دی تُو نے تو ذہن کیوں ہو پریشان مال و زر کے لیے
ہو ناز تیری غلامی پہ جس قدر، کم ہے کہ اس سے بڑھ کے نہیں کوئی تاج سر کے لیے
اگر خُدا کو بھی مَیں تیرا واسطہ دے دوں کبھی بھٹک نہیں سکتی دُعا اثر کے لیے
بندھی ہیں جن کی گِرہ میں حضوریاں تیری وُہ دن سنبھال کے رکھّے ہیں عُمر بھر کے لیے
اِسی بہانے مظفّؔر کو تُو نصیب ہُوا کہ آہٹیں تِری درکار تھیں گجر کے لیے