دل سے مِرے دنیا کی محبت نہیں جاتی سرکار! گناہوں کی بھی عادت نہیں جاتی
دن رات مسلسل ہے گناہوں کا تَسَلسُل کچھ تم ہی کرو نا یہ نُحُوست نہیں جاتی
کھا نے کی زِیادَت ہے تو سونے کی بھی کثرت اور خندۂ بے جا( )کی بھی خصلت نہیں جاتی
گو پیشِ نظر قبر کا پُرھول گڑھا ہے افسوس! مگر پھر بھی یہ غفلت نہیں جاتی
اے رَحمتِ کونین! کمینے پہ کرم ہو ہائے! نہیں جا تی بُری خصلت نہیں جاتی
جی چاہتا ہے پھوٹ کے روؤں تِرے غم میں سرکار! مگر دل کی قَساوَت نہیں جاتی
کیا ہو گیا سرکار! خیالوں کو ہمارے اَغیار کے فیشن کی نُحُوست نہیں جاتی
گو لاکھ بُرا ہی سہی مایوس نہیں ہوں صد شکر کہ اُمّیدِ شَفاعت نہیں جاتی
عادت مجھے معلوم ہے آقا کی کسی کا دل توڑ کے جاتی نہیں رَحمت نہیں جاتی ’’ اپنوں ‘‘ کو تو سرکار! تباہی سے بچا لو بے چاروں کے سینوں سے عداوت نہیں جاتی
اللہُ غنی! شانِ ولی! راج دلوں پر دنیا سے چلے جائیں حُکومت نہیں جاتی
کچھ ایسی کشِش تجھ میں ہے اے شَہرِ مدینہ! گو حاضِری سو بار ہو حسرت نہیں جاتی
نَیرنگیِ دنیاکے تماشوں کی خبر ہے عطّارؔ تو کیوں دل سے یہ الفت نہیں جاتی