دل ہائے گناہوں سے بیزار نہیں ہوتا مغلوب شہا! نفسِ بدکار نہیں ہوتا
شیطان مُسلَّط ہے افسوس! کسی صورت اب صبر گناہوں پر سرکار نہیں ہوتا
اے رب کے حبیب آؤ! اے میرے طبیب آؤ اچّھا یہ گناہوں کا بیمار نہیں ہوتا
گو لاکھ کروں کوشش اِصلاح نہیں ہوتی پاکیزہ گناہوں سے کِردار نہیں ہوتا
یہ سانس کی مالا اب بس ٹوٹنے والی ہے دل آہ! مگر اب بھی بیدار نہیں ہوتا
سنّت کی طرف لوگو تم کیوں نہیں آجاتے کیوں سرد گناہوں کا بازار نہیں ہوتا
سرکار کا عاشِق بھی کیا داڑھی مُنڈاتا ہے! کیوں عِشق کا چِہرے سے اظہا ر نہیں ہوتا
آقا کی اطاعت سے جی اپنا چُراتے ہیں جو، ایسوں سے خوش ربِّ غفّار نہیں ہوتا
جینے کا مزہ اُس کو ملتا ہی نہیں جس کا دل عشقِ محمد سے سرشار نہیں ہوتا
جو یادِ مدینہ میں دن رات تڑپتے ہیں دُور ان سے مدینے کا دربار نہیں ہوتا
مغموم ہے غم جس کو آقا کا نہیں ملتا بیمار ہے جو اُن کا بیمار نہیں ہوتا
خوشیوں میں مَسَّرت میں آسائش و راحت میں اَسرارِ محبت کا اظہار نہیں ہوتا
وہ عشقِ حقیقی کی لَذّت نہیں پاسکتا جو رنج و مصیبت سے دو چار نہیں ہوتا
اے زائرِطیبہ! تُو دم توڑ دے چوکھٹ پر دیدار، مدینے کا ہر بار نہیں ہوتا
کون ایسی کرے جُرأَت کہہ سکتا نہیں عاقِل سرکار کا دیوانہ ہُشیار نہیں ہوتا
آجائے مدینے میں لے جائے ذراسی خاک جو ٹھیک کسی صورت بیمار نہیں ہوتا
اے سائلو! آجاؤ اور جھولیاں پھیلاؤ دربارِ رسالت سے انکار نہیں ہوتا
وہ بَحرِ سخاوت ہیں وہ قاسِمِ نِعمت ہیں طَیبہ کا گدا ہرگز نادار نہیں ہوتا
دنیا میں بھی ٹھنڈا ہے عُقبٰی میں بھی ٹھنڈا ہے جو ان کا ہے دیوانہ وہ خوار نہیں ہوتا
دنیا میں بھی جلتا ہے عُقبٰی میں بھی جلتا ہے میں کیسے کہوں مُنِکر فِی النّار نہیں ہوتا
چھوڑو اے فِرِشتو وہ، آتے ہیں شَفاعت کو وہ جس کے بھی حامی ہیں فِی النّار نہیں ہوتا
افسوس نَدامت بھی عِصیاں پہ نہیں ہوتی نیکی کی طرف مائل عطارؔ نہیں ہوتا
آقا کا گدا ہو کر عطارؔ تُو گھبرائے گھبرائے وُہی جس کا غمخوار نہیں ہوتا