دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے ایک لمحے کو مجھے اپنا زمانہ دےدے
چھاپ دے اپنے خدوخال مری آنکھوں پر پھر رہائش کے لیے آئِنہ خانہ دے دے
اور کُچھ تُجھ سے نہیں مانگتا میرے آقا نارسائی کو زیارت کا بہانہ دےدے
مَوت جب آئے مجھے کاش ترے شہر میں آئے خاکِ بطحا سے بھی کہہ دے کہ ٹھکانہ دے دے
زندگی ، جنگ کا میدان نظر آتی ہے میری ہر سانس کو آہنگِ ترانہ دےدے
اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے اُمّت تیری اُس کے اُلجھے ہُوئے حالات کو شانہ دےدے
اپنے ماضی سے مظفّؔر کو ندامت تو نہ ہو اس کے اِمروز کو فردائے یگانہ دے دے