بُراقِ فکر ہے گردوں نو رد آج کی رات ہَوا اُڑاتی ہے تاروں کی گرد آج کی رات
یہ کون ذہن کے روشن مکان میں اُترا خیال صُورتِ جبریل دھیان میں اُترا
ہے خم ، رسائی اِنساں پہ فاصلوں کی جبیں بلندیوں پہ کمندیں اُچھالتی ہے زمیں
یہ رات کیوں نہ ہو افضل تمام راتوں میں لِیے ہُوئے ہیں اندھیرے ٗ چراغ ہاتھوں میں
وہ رات ، جس کا زمانہ جواب لا نہ سکے مِلائے آنکھ تو سُورج بھی تاب لا نہ سکے
وہ رات جس نے حسیں خواب جاگ کر دیکھا وہ رات جس نے محمّد ؐ کو عرش پر دیکھا
گیا تھا عِشق ، خلاؤں کی راہ سے آگے نِگاہ جاتی ہے حدِّ نگاہ سے آگے
رُکی رُکی نظر آتی تھی نبض عَالَم کی گُزر رہی تھی سواری رسُولِ اکرمؐ کی
رواں تھے ساتھ فرشتے عبا اُٹھائے ہُوئے فضائیں ، کتبہء صَلِّ عَلیٰ اُٹھائے ہُوئے
عروجِ آدمیّت آپ پر تمام ہُوا خُدا خُود اپنے ہی جلوؤں سے ہمکلام ہُوا
تجلیّات کے ہالے میں یُوں گھِرے دونوں کمان ِ وصل کھِنچی ، مِل گئے سِرے دونوں
بلند ایسے نہ رُتبے کسی نبی کے ہُوئے زہے نصیب کہ ہم اُمّتی اُسی کے ہُوئے