بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوہ جانانہ
جی چاہے ہے تحفے میں دے دوں میں تجھے آنکھیں درشن کا تو درشن ہے نذرانے کا نذرانہ
سنگ در جاناں پر کرتا ہوں جبیں ساعی سجدہ نہ سمجھ زاہد سر دیتا ہوں نذرانہ
اتنا تو کرم کرنا اےچشمِ کریمانہ جب جان لبوں پر ہوں تم سامنے آجانا
میں ہوش و حواس اپنے اس بات پہ کھو بیٹھا ہنس کر جو کہا تو نے یہ ہے میرا دیوانہ
پینے کو تو پی لوں گا پر عرض ذرا سی ہے اجمیر کا ساقی ہو بغداد کا میحانہ
کیوں آنکھ ملائی تھی کیوں بات بڑھائی تھی اب رُخ کو چھپاتے ہو کر کے مجھے دیوانہ
بیدؔم میری قسمت میں سجدے ہیں اسی درکے چھُوٹا ہے نہ چھُوٹے گا سنگ در جانانہ