بس قلب وہ آباد ہے جس میں تمہاری یاد ہے جو یاد سے غافل ہوا وِیران ہے برباد ہے
رَنج و اَلم میں مبتلا وہ ہے جو تجھ سے پھر گیا بے فکر وہ غم سے رہاجس دِل میں تیری یاد ہے
اے بندگانِ مُحْیِ دِیں دِل سے ذرا فریاد ہو بغداد کا فریاد رَس تو بر سرِ اِمداد ہے
محبوبِ سبحانی ہو تم مقبولِ رَبانی ہو تم بندہ تمہارا جو ہوا وہ نار سے آزاد ہے
ہوں نام لیوا آپ کا عاصی سہی مجرم سہی مجھ پُر خطا کے واسطے سرکار کیا اِرشاد ہے
بغداد کی گلیوں میں ہو آقا مرا لاشہ پڑا ٹھوکر لگا کر تم کہو یہ بندۂ آزاد ہے
کیوں پوچھتے ہو قبر میں مجھ سے فرشتو دَم بدم لو دِل کے اندر دیکھ لو غوثُ الوریٰ کی یاد ہے
جب رُوبرو قہار کے دَفتر کھلیں اَعمال کے کہنا خدائے پاک سے یہ بندۂ آزاد ہے
مشکل پڑی جو سامنے آئی ندا بغداد سے میں ہوں حمایت پر تری بندے تو کیوں ناشاد ہے
اَفکار میں ہوں مبتلا کوئی نہیں تیرے سوا یاعبدِ قادِر مُحْیِ دِیں فریاد ہے فریاد ہے
اُٹھ بیٹھ گنبد سے ذرا چمکا دے بخت اِسلام کا یاعبدِ قادِر مُحْیِ دِیں فریاد ہے فریاد ہے
تاریک شب چوروں کا بن ساتھی نہ کوئی راہبر بغداد کے روشن قمر فریاد ہے فریاد ہے
قسمت ہی کھل جائے مری گر اے جمیلؔ قادری آئے خبر بغداد سے عرضی پہ تیری صاد ہے