اے دِل تو دُرُودوں کی اَوّل تو سجا ڈالی پھر جا کے مَدینہ میں روضے پہ چڑھا ڈالی
کیا نذر کروں تیرے دَربارِ مقدس میں توصیف کے پھولوں کی لایا ہوں شہا ڈالی
اَحمد کو کیا آقا اور ہم کو کیا بندہ اللہ نے رحمت کی کیا خوب بنا ڈالی
بس جائے دِماغِ جاں عشاق کا خوشبو سے لا باغِ مَدینہ سے پھولوں کی صبا ڈالی
خورشید و قمر ایسے ہوتے نہ کبھی روشن تو نے ہی جھلک اُن میں اے نورِ خدا ڈالی
تم سے نہ کہوں کیونکر تم چاند عرب کے ہو دیکھو تو شبِ غم نے کیا مجھ پہ بلا ڈالی
شرمندہ کیا مجھ کو آگے میرے آقا کے اے نفسِ لَعِیں تو نے مجھ پر یہ بلا ڈالی
مولیٰ مرے نامہ سے دُھل جائیں گے سب عصیاں اِک بوند اگر تو نے اے اَبرِ سخا ڈالی
مجرم تیرے اَرمانوں کا ہے باغ پھلا پھولا لے فرد گناہوں کی مولیٰ نے مٹا ڈالی
سب بھر دیئے زخمِ دِل سرکارِ مَدینہ نے قلبوں میں غلاموں کے رحمت کی دوا ڈالی
کچھ ایسی گھٹا نوری اُمنڈی کہ تیری امت پاک ہوگئی رحمت کی بارش میں نہا ڈالی
واللہ مَدد ان کی ہر دم ہے کمر بستہ جو بات مری بگڑی مولیٰ نے بنا ڈالی
مقبول اسے کیجیے اور اس کا صلہ دیجیے لایا ہے جمیلؔ اپنے اَرماں کی سجا ڈالی