اے بِیابانِ عَرب تیری بہاروں کو سلام تیرے پھولوں کو تِرے پاکیزہ خاروں کو سلام
جَبَلِ نور و جَبَلِ ثَور اور ان کے غاروں کو سلام نور برساتے پہاڑوں کی قِطاروں کو سلام
جھومتے ہیں مسکراتے ہیں مُغیلانِ عَرَب خوب صورت وادِیوں کو ریگزاروں کو سلام
رات دن رحمت برستی ہے جہاں پر جھوم کر ان طوافِ کعبہ کے رنگیں نظاروں کو سلام
عشق میں دیوارِ کعبہ سے جو لپٹے ہیں وہاں ان سبھی دیوانوں سارے بے قراروں کو سلام
حجرِ اَسود، باب و میزاب و مقام و مُلتَزم اور غلافِ کعبہ کے رنگیں نظاروں کو سلام
مُستجار و مُستجاب و بیرِ زم زم اور مَطاف اور حَطیمِ پاک کے دونوں کَناروں کو سلام
رکنِ شامی و عراقی و یمانی کو بھی اور جگمگاتے نور برساتے مَناروں کو سلام
جو مسلماں خانۂ کعبہ کا کرتے ہیں طواف ان کو بھی اور سارے ہی سَجدہ گزاروں کو سلام
خوب چُومے ہیں قدم ثَور و حِرا نے شاہ کے مہکے مہکے پیارے پیارے دونوں غاروں کو سلام
مَدنی مُنّوں کا بھی حملہ خوب تھا بوجَہل پر بدر کے ان دونوں ننھے جاں نثاروں کو سلام
جگمگاتے گنبدِ خضرا پہ ہو رحمت مُدام مسجدِ نبوی کے نورانی مَناروں کو سلام
منبر و محرابِ جاناں اور سُنہری جالیاں سبز گنبد کے مکیں کو دونوں پیاروں کو سلام
سیِّدی حمزہ کو، اور جُملہ شہیدانِ اُحُد کو بھی اور سب غازیوں کو شہسُواروں کو سلام
جس قدر جنّ وبشر میں تھے صحابہ شاہ کے سب کو بھی بیشک خصوصاً چار یاروں کو سلام
جس جگہ پر آکے سوئے ہیں صَحابہ دس ہزار اُس بقیعِ پاک کے سارے مَزاروں کو سلام
شوقِ دیدارِ مدینہ میں تڑپتے ہیں جو، اُن بے قراروں، دل فِگاروں، اشکباروں کو سلام
غسلِ کعبہ کا بھی منظر کس قَدَر پُر کیف ہے جھوم کر کہتا ہے عطارؔ ان نظاروں کو سلام