آواز دی تو رحمتِ سرکار رک گئی جو دِل پہ چل رہی تھی وہ تلوار رُک گئی
جاتا ہُوا وقار مِلا اُن کے نام پر سر سے گری تو ہاتھ پہ دستار رُک گئی
اِک دائرہ سا اُن کا مرے گرد کھینچ کر میرے تصوّرات کی پرکار رُک گئی
جب ذہن سب بلندیاں تسخیر کر چُکا غارِ حِرا پہ رفعتِ افکارِ رُک گئی
پابندِ روز و شب نہ تھی معراجِ مصطفےٰ جب وہ چلے تو وقت کی رفتار رُک گئی
روضے کو دیکھتے ہی میں سکتے میں آگیا یا پُتلیوں میں خواہش دیدار رُک گئی
مَیں ساحلِ حضور سے جب لَوٹنے لگا ایسا لگا کہ زندگی اُس پار رُک گئی
عشقِ نبی نے مُجھ کو مظفّؔر بچا لِیا جو مُجھ میں گِر رہی تھی وُہ دیوار رُک گئی