آج کی اَقدار ہُوں ماضی کی عظمت بھی تو ہُوں مَیں غزل گو، شاعرِ بزمِ رسالت بھی تو ہُوں
نُقطہ کہلاؤں گا ، کٹ جاؤں لکیروں سے اگر جِدّ توں سے ہی نہیں ناتا ، روایت بھی تو ہُوں
مَیں کہیں بھٹکوں پہنچنا اُن کے دروازے پہ ہے خواہشِ دُنیا سہی ، جو یائے رحمت بھی تو ہُوں
ذہن سے لب تک درُودوں کا اگر ہے سِلسلہ سر سے لے کر پاؤں تک شوقِ زیارت بھی تو ہُوں
زندگی کے ہاتھ میں تو اُن کا دامن آ گیا آخرت میں خُو گرِ مُہرِ شفاعت بھی تو ہُوں
خاکِ پائے مُصطفؐےٰ بھی ایک میرا نام ہے جو زمیں سے آسماں کو ہے وُہ نسبت بھی تو ہُوں
ریزہ ریزہ ہے بظاہر شیشہ ہستی مِرا دستِ سرکارِ دو عالم میں سلامت بھی تو ہُوں
چاہنے والوں سے کرتا ہُوں مظفر ناز بھی ذکر ہو جب میرے آقا کا ، عقیدت بھی تو ہُوں