مظلوم جب بھی لڑتا ہے اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے اپنے عہد میں وہ کربلا کی جنگ
کرتی ہے خیر آج بھی شر کا مقابلہ شعلوں کے ساتھ کب نہیں ہوتی ہوا کی جنگ
تاریخ میں لڑی ہے فقط اک حسین نے ظلم و ستم کی فوج سے صبر و رضا کی جنگ
اپنے لہو میں ڈوب کے وہ پار اتر گیا گھوڑے سے گر کے جیت گیا ارتقا جنگ
نا نا کی روح نکلی نواسے کے جسم سے بچوں نے مصطفےؐ کے لڑی مصطفےؐ کی جنگ
اٹھتی ہے یہ صدا علی اصغر کے خون سے لڑتے ہیں شیر خوار بھی نشوونما کی جنگ
میدان شاعری کا مظفر ہے تیغ زن آئی ہے اس کے حصے میں حرف و صدا کی جنگ