تاریخ ہے نگاہ نظارہ حسین ہے ہر صبح انقلاب کا تارہ حسین ہے
اس کے حضور جاتا ہے شہ رگ سے راستہ بہتے ہوئے لہو کا کنارہ حسین ہے
منزل خدا کی ذات ہو یا ذات مصطفؐےٰ اس چوک کا ہر ایک اشارہ حسین ہے
خون حسین گونجتا ہے ہر اذان میں ہر خانہ خدا کا منارہ حسین ہے
دکھلا رہا ہے ، رہ نما سازوں کو راستہ چارہ گروں کی فکر کا چارہ حسین ہے
تاج ملوکیت پہ ہیں ثبت اسکی ٹھوکریں جمہوریت کا پہلا ادارہ حسین ہے
صدیوں سے پڑھ رہی ہیں مظفر محبتیں اسلام ہے مدیر شمارہ حسین ہے